میں ادھر کو چلتا ہوں
جس طرف اندھیرا ہو
راستہ نہیں ہوتا
آدمی ادھورا ہوں
کام بھی ادھورے ہیں
اب نشہ نہیں ہوتا
جام بھی ادھورے ہیں
رات بھی ادھوری ہے
بات بھی ادھوری ہے
کچھ بھی کر گزرنے کا
حوصلہ نہیں ہوتا
ایک شعر کہتا ہوں
دوسرا نہیں ہوتا
شاعری ادھوری ہے
زندگی ادھوری ہے
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...